میں کیسے صحتیاب ہوا؟

 

نوومبر 2013 میں جب مجھے پہلی بار شدید قسم کا السریٹو کولائٹس ہوا، میں امریکہ میں تھا، اور مجھے ایک امریکی ہسپتال میں داخل ہونا پڑا، جہاں کولونوسکوپی کے بعد ڈاکٹر نے مجھے سٹیرائڈز دیں۔ وقتی طور پر مجھے معمولی سا فرق محسوس ہوا، لیکن جیسے ہی سٹیرائڈز کی مقدار نیچے گئی تو مجھے بیماری کی تمام علامات واپس آگئیں۔ مجھے دوبارہ سٹیرائڈز زیادہ مقدار میں لکھ کر دی گئیں، لیکن ساتھ خوراک میں احتیاط کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا اورسرسری سا کہا گیا کہ جو چیز تنگ نہ کرے استعمال کریں۔ میں اب مزید تجربے نہیں کرنا چاہتا تھا، کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا دوسرا سٹیرائڈز کا کورس بھی رائیگاں جائے۔ بے قراری اورپریشانی کے عالم میں، میں نے انٹرنیٹ کا رخ کیا اور السریٹو کولائٹس کی مناسب خوراک کی تلاش شروع کی۔ کئی گھنٹوں کی محنت کی بعد، کئی درجنوں خوراکیں سامنے آگئیں، اور ہر خوراک اپنے آپ کو السریٹو کولائٹس کی بہتریں خوراک کہ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے ایک شخص کی کہانی ملی، جس نے لکھا کہ کیسے اس نے ایک اچھی خوراک اپنا کر السریٹو کولائٹس پر قابو پا لیا ہے، اور اب وہ روزانہ باسکٹ بال کیھلتا ہے اور جم جاتا ہے۔ میرے لیے یہ کافی حیرانکن تھا کیونکہ شدید بیماری کی کمزوری سے میرے لیے چلنا پھرنا بھی دشوار تھا اور نماز بھی میں بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ اس شخص نے اپنی کہانی میں ایک کتاب، ایس سی ڈی لائف اسٹائل۔۔۔ کا ذکر کیا جو میں نے فورآ آنلائن خرید لی، اور اس کتاب کے مطالعے سے آغاز کیا ۔ جب میں یہ کتاب پڑھ رہا تھا ، میں نے دیکھا کہ یہ کتاب مختلف جگہوں پر ایک اور کتاب کا حوالہ دے رہی ہے۔ یہ وہ کتاب تھی جو ایس سی ڈی غذا کے موجد ایلن گوشل نے لکھی تھی۔ پھر ، میں نے اس کتاب کو “بریکنگ دی ویشیئس سائیکل (بی ٹی وی سی)” آرڈر کیا اور اس کو تفصیل سے پڑھا۔ اس کتاب کے بارے میں مجھے اچھی چیز یہ لگی کہ اس میں ایک کافی اچھی منطق بیان کی گئی تھی کہ ایس سی ڈی ڈائیٹ میں یوسی کی علامات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیتیں کیوں ہے۔ اس کتاب نے تمام کھانے پینے کی اشیاء کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ جوکھانے کی چیزیں یوسی ، کرونز، مریضوں کے لیے جائز قرار دی گئیں انہیں لیگل، اور جو منع تھیں، انہیں الیگل قرار دے دیا۔ مختصراً، اس کتاب کے مطابق جب ایک یو سی کا مریض الیگل چیزیں استعمال کرتا ہے، تو اس کی آنتوں میں برے جراثیموں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جسکی وجہ سے اس کا اپنا ہی دفاعی نظام (ایمیون سسٹم) اس کی آنتوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور آنتوں میں السر بننے شروع ہو جاتے ہیں، اور یوں یوسی کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ اور اس مسئلے کا حل یہی کہ وہ اشیاء نہ کھائی جائیں جو آنتوں میں برے بیکٹیریا کے تعداد کو زیادہ کرتی ہیں۔ اس لنک پر تمام کھانے کی اشیاء کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لیگل ہیں، یا الیگل۔

SCD Legal / Illegal List of food items

کتاب میں دی گئی غذا کی تراکیب والے حصے پر عمل کرنا تھوڑا مشکل ہے ، کیوں کہ ہر ایک کی بیماری کی سطح مختلف ہوتی ہے، یہاں تک کہ ہر ایک ہر لیگل خوراک کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اور یہی سب سے مشکل مرحلہ ہے ، کیونکہ اس مرحلے میں زیادہ تر لوگ مایوس ہوجاتے ہیں اور ایس سی ڈی چھوڑ دیتے ہیں۔ میں نے کھانے کی ڈائری بنائی جس سے میں یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ میں ایس سی ڈی کی جائز فہرست میں سے کون سے کھانے کو برداشت کرنے کے قابل تھا ، اور کون سے ایسے تھے جو میرے لیے پریشانی کا باعث تھے۔ یہ عمل میں نے ایک وقت میں ایک خوراک ٹرائی کر کے کیا۔ مجھے یاد ہے ، ایس سی ڈی میں تجویز کردہ انٹرو ڈائیٹ (ابتدائی خوراک) بھی مجھے اچھی طرح سے برداشت نہیں ہوئی ، کیونکہ سوپ اور گاجر ، پنیر وغیرہ بہت زیادہ گیس بنا رہا تھا اور میں اچھی طرح سے برداشت نہیں کرتا تھا۔ میں چکن پر بھروسہ کر رہا تھا ، اسے پہلے ابالتا تھا اور پھر بیک کرنا پڑتا تھا۔ ساتھ میں، میں کدو کا سالن چمچ کے ساتھ کھاتا تھا۔ جیسے ہی میں نے ایس سی ڈی شروع کی ، میں نے اپنا وزن کم ہوتا محسوس کیا ، اور مجموعی طور پر ، میرا 10 کلوگرام وزن گر گیا۔ میری ہڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ وزن میں کمی ایک وقت تک جاری رہی، لیکن پھر ایس سی ڈی کے استعمال نے میرے اسہال اور خون کی کمی کو کنٹرول کیا۔ آخر کار، تقریبآ دو مہینے بعد چیزیں صحیح راستے پر آگئیں اور “بیماری کا برا سائیکل (ویشیئش سائکل) ٹوٹ گیا” ، اور میرا وزن بڑھنا شروع ہو گیا۔

ایس سی ڈی کو اپنانے کے بعد ابتدا میں میرے لیے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا بہت مشکل تھا ، کیونکہ میٹھا اور گندم کی خواہش زیادہ ہوتی جارہی تھی ، اور اس میں اسٹیرائڈز آگ پر تیل کی دھار کا کام کر رہے تھے۔ جیسے کسی منشیات کے عادی سے اچانک منشیات چھین لی گئی ہوں۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس پر قابو پانا ہے ، کیونکہ یہ آزمائش کی گھڑی تھی ۔ میرے خیال میں میری لمبی لمبی دعائیں ، اور روزانہ قرآن پاک کی تلاوت، سورہ رحمن ، یاسین ، واقعہ ، اور الملک نے مجھے یہ صبر عطا کیا۔ اور میرے ذاتی تجربے میں ، ایس سی ڈی غذا کا اثر اس شخص پر پڑتا ہے جس میں اس کا پختہ اعتقاد ہوتا ہے، اور یہ اعتقاد ایس سی ڈی کے مطالعہ سے قائم ہوتا ہے۔ دوسری اہم چیز جس سے انسان ایس سی ڈی کو اپنا سکتا ہے، وہ اپنی کسی خواہش کی تکمیل کا جذبہ ہے۔ میرے لئے ایک بہت بڑی خواہش امریکہ سے پی ایچ ڈی کا حصول تھا جو آخری مراحل میں تھی اور میں جلد سے جلد ٹھیک ہو کر اسے مکمل کرنا چاہتا تھا ۔ لہذا اس حوصلہ افزائی اور قوت ارادی نے مجھے ایس سی ڈی کی الیگل اشیاء کے استعمال سے اپنے آپ کو سختی سے روکنے میں مدد کی۔ مگر یہ ایک آرامدہ اور ہموار سفر نہ تھا ۔ اس سفر میں بہت اتار چڑھاؤ تھے۔ کبھی تین دن اچھے، دو دن برے گزرتے۔ میری صحت انچ بہ انچ بہتر ہو رہی تھی، چار قدم آگے، تین قدم پیچھے ۔ ابتدائی دنوں میں، میں جلدی مایوس / افسردہ ہو جاتا تھا ، اور اکثر میں خود سے سوال کرتا تھا کہ “ایس سی ڈی مجھ پر کام کیوں نہیں کررہا ہے؟” کچھ دن آرام آنے کے بعد دوبارہ طبیعت کیوں خراب ہوئی؟ ۔ میں نے بہت سے سوالات کے جوابات جاننے کے لئے مزید مطالعہ کیا ، وہ سوال، جن کے جوابات بی ٹی وی سی کی کتاب میں موجود نہیں تھے۔ میں ایس سی ڈی استعمال کرنے والے لوگوں کے ایک بڑے سپورٹ گروپ کا ممبر بنا، اور لوگوں کے سوالات ، اور ایس سی ڈی ماہرین کے جوابات پڑھنا شروع کیے۔ اس سے مجھے دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور صحیح فیصلے کرنے میں مدد ملی۔ پھر، میں نے اپنے آپ کو ایس سی ڈی پر ٹرین کیا اور اس بات پر مہارت حاصل کی کہ ای سی ڈی کی لیگل چیزوں میں سے کون کون سی نقصان نہیں دیتیں، اور کس حالت میں کون سی لینی چاہیں اور کونسی نہیں۔ اور اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو کیسے اپنے آپ کو اس خراب صورتحال سے نکالا جائے۔

جیسا کہ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ السریٹو کولائٹس، کرونز، وغیرہ پوری زندگی کی بیماریاں ہیں۔ ان پر قابو رکھنے کیلئے ضروری ادویات اور مناسب خوراک دونوں بہت ضروری ہیں، صرف ایک سے کام نہیں چلے گا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں اپنی بیماری کو سمجھ گیا ہوں، تو میں نے سن 2015 ایک فیس بک کا پیج (

https://www.facebook.com/ulcerativecolitispakistan) بنایا اور ایس سی ڈی کے بارے میں معلومات شائع کرنی شروع کیں۔ اس کے بعد سے لوگوں نے مجھے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ پھر 2016 میں، میں نے یو ٹیوب پر ایک معلوماتی ویڈیو لگائی جس کا نام تھا السریٹو کولائٹس پاکستان۔ اس ویڈیو کے بعد سے مجھ کثیر تعداد میں لوگوں نے رابطہ کرنا شروع کیا۔ پھر آخر کار میں نے فیس بک گروپ بنا دیا جسکو کافی لوگوں نے جائن کر کے ایس سی ڈی کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اور کافی لوگوں، خواتین و حضرات، نے مجھے بتایا کہ ایس سی ڈی استعمال کرنے کے بعد اب ان کی بیماری کنٹرول میں ہے اور ان کی زندگی کی خوشیاں لوٹ آئیں ہیں۔ ایس سی ڈی کے استعمال کے بعد اکثر لوگوں نے مجھے میسج کر کے بتایا کہ کیسے ان کی طبیعت اب بہت بہتر ہو چکی ہے۔

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *